MotasimMalik

Add To collaction

دور کے ڈھول

دور کے ڈھول

میں نے کہ دیا میں صداقت تو کیا پورے خاندان میں شادی نہیں کروں گی۔ ساریہ چلاتے ھوئے بولی۔ کیوں خاندان میں کیا برائی ھے۔ ساریہ کی سہیلی نے پوچھا کوئ ایک ھو تو بتاوں۔ وھیں کنوئیں کے مینڈک بن کر زندگی گزارو اس صدیوں پرانی روٹین پر چلو اور بھلا دادی نے کیا سوچ کر تائ کو پسند کیا ھوگا ھر وقت ماتھے پر تیوریاں چڑھی ھوتی ھیں اور نام شگفتہ۔۔۔۔ پھر پھٹے گلے والی چھوٹی تائ بینا بین کی مدھر آواز اگر تائ کی آواز سن لے تو کبھی بجے ھی نہ چار مرلہ جگہ گھیر کر بیٹھنے والی پھوپھو جوہی ساری عمر کرائیے کے گھروں میں رھنے والے مقیم پھوپھا۔۔۔۔ ۔ اور سارے جہاں کا جھوٹا نام صداقت میں تو ٹکا سا جواب دوں گی۔ ساریہ کی ساری بکواس سن کر زرنش نے کہا اچھے بھلے تو ھیں صداقت بھائ تم سیدھے کہو کہ کسی سے آنکھ لڑ گئ ھے جو خاندان میں شادی نہیں کرنی بس او بی بی تمھیں اچھے لگتے ھیں صداقت بھائ تو تم اس سے شادی کرلو اور مجھے آنکھ لڑانے کا کہنے والی تم ھوتی کون ھو۔یہ کہ کر ساریہ نے تکیہ زرنش کے مارا۔ دونوں کا آج بی ایس فائنل کا امتحان مکمل ھوا تھا ساریہ کے ابو آج اسے لینے آرھے تھے مگر اس نے منع کرتا کہ آج ھم لڑکیاں ھاسٹل میں پارٹی کریں گی آپ کل لینے اجانا۔ اصل میں ساریہ اور زرنش یونیورسٹی میں پہلے دن ھی مل گئیں تھیں جب وہ فارم جمع کرانے آئیں تھیں۔ پھر دونوں کا داخلہ ھوا روم میٹ بنیں اور چار سال اکٹھے رھیں تھیں دونوں کے مزاج آگ اور پانی تھے مگر دونوں کی دوستی اور ایک دوسرے کے بغیر دل نہ لگتا تھا۔ ساریہ کس گھرانہ تھوڑا روایتی سا تھا پورا جنبہ قبیلہ مل جل کر رھنے والا شادیاں بھی آپس میں کی جاتیں تھیں۔ بس اسی بات کا ساریہ کو غصہ تھا کہ ہر موقع پر وہی پرانے چہرے جو کہ زرا بھی نام سے میل نہ رکھتے تھے۔ ساریہ کی بہنیں مدحت اور تہنیت کی شادیاں خاندان میں ھوئ تھیں دو بھائیوں کے بعد وہ پیدا ھوئے تو زینت نام رکھا گیا تھا جسے اس نے لڑ جھگڑ کر ساریہ کے ساتھ بدل لیا تھا۔ دادی فوت ھوئیں تو حسب دستور بڑی تائ نے گھر کنبے کا انصرام سنبھال لیا تھا تاہم کا نام شگفتہ تھا مگر سخت طبیعت کی مالک تھیں اگلے دن دو گھنٹے کے سفر کے بعد گھر پہنچی تو جھٹ بولی پورا چڑیا گھر ویسے کس ویسا آباد ھے کا نعرہ لگاتی صحن میں داخل ھوئ اوپر سے جواب پڑا بندریا نہیں تھی آج کمی پوری ھوگی یہ تائ کا بڑا پوتا صفوان تھا جو کہ پورے کا پورا ساریہ پر گیا تھا۔فوری ٹیرس سے جواب دے کر نیچے پہنچا اور ساری پھپھی ساری پھپھی کہتا اس سے پاس آیا صفوان ساریہ سے دو سال چھوٹا تھا اور وہ ایف ایس سی کرکے آرمی میں چلا گیا تھا آج کل ٹریننگ سے چھٹی ایس ھوا تھا اوہ ھو یہ سر منڈھی بھیڑ کب آئ ھے ابھی تو قربانی کے دن بھی نہیں ھیں ساریہ کہاں چپ رھنے والی تھی خوب ٹکا کر دونوں باتوں کو بدلہ لیا ساری پھپھی تو وہ اسے چڑانے کے لئے کہتا تھا ارے کیوں لڑنے لگ گئے ھو بچی سبھی سفر سے آئ ھے۔ تائ بینا بھاری آواز میں بولی تو صفوان پھر بولا چھوٹی دادو بچھی کونسی ارے اب گھر میں گائے بھینسیں بھی باندھ لیں اس سے پہلے ساریہ کی توپیں آگ اگلتیں اماں نے آکر ساریہ سے کہا منہ ھاتھ دھو کر جلدی سے او سب کھانے پر انتظار کر رھے ھیں اسی طرح سے دن گزرے جارھے تھے ماں اسے صداقت کے لئے منا رھی تھی صداقت کامرس میں ماسٹر کر کے اپنے شہر میں ھی بنک کا مینیجر تھا۔ مگر ساریہ نے ماں کو صاف کہ دیا کہ خاندان میں نام نہیں لینا۔ تمہارے ابا کا بھی یہی خیال ھے خاندان کا دیکھا بھالا بچہ ھے ابا کی تو بات چھوڑیں انھیں منا لوں گی بات آئ گئ ھوگی ابھی صداقت کے بارے میں اسکے والدین نے سوچا تھا کسی اور سے بات نہیں ھوئ تھی
بقیہ کہانی اگلی قسط میی۔

   16
0 Comments